’رؤیا‘ کے لفظ کو بیداری میں دیکھنے کے مفہوم میں لینے کے لیے ابوطیب متنبی[48] کے ایک مصرع سے استشہاد کیا جاتا ہے۔ امام ابنِ حجر عسقلانی نے اِسے بناے استدلال بنایاہے اور ’’فتح الباری‘‘ کتاب التفسیر میں آیۂ اسرا کے تحت لکھا ہے:
وممن استعمل الرؤيا في اليقظة المتنبي في قوله: ورؤياك أحلى في العيون من الغمض.(5/673) | ’’اور جنھوں نے ’الرؤیا‘ کو بیداری کے معنی میں استعمال کیا ہے، اُن میں سےایک متنبی ہے۔ اُس کا قول ہے: ’ورؤياك أحلى في العيون من الغمض‘ (یہ تیرا رؤیا آنکھوں کے لیےنیند سے بھی زیادہ شیریں ہے)۔‘‘ |
اِس مصرع کے حوالے سے استدلال یہ ہے کہ یہاں ’رؤیا‘ کا لفظ خواب کے مفہوم میں استعمال نہیں ہوا۔ یعنی اِس سے مراد وہ غیر حقیقی منظر نہیں ہے، جو نیند میں دیکھا جاتا ہے۔اِس سے بیداری کی حالت میں دیکھنا مراد ہے۔
ہمارے نزدیک ابنِ حجر کی یہ بات بالکل درست ہے کہ اِس مصرع میں ’رؤیا‘ کا لفظ خواب کےمعنی میں استعمال نہیں ہوا،اِس لیے اِسے جاگتی آنکھوں سے دیکھنے کے مفہوم میں لینا چاہیے۔ [49] لیکن اِس کے باوجود سوال یہ ہے کہ کیا اِس دلیل سے وہ نتیجہ نکلتا ہے، جو ابنِ حجر اور دیگر اہل علم نے نکالا ہے کہ ’رؤیا‘ کا لفظ نیند میں دیکھنے کے ساتھ بیداری میں دیکھنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور سورۂ بنی اسرائیل میں یہ اِسی دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے؟ ہمارے نزدیک اِس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
اِس بات کو سمجھنےکے لیے پہلے درجِ ذیل تین سوالوں پر غور ضروری ہے:
1۔کیا زیرِ بحث آیت کے لفظ، جملے یا اسلوب نے ایسی ضرورت پیدا کر دی ہے کہ متکلم کا منشا جاننے کے لیے کتاب الٰہی سے باہر جانا پڑ گیا ہے؟
2۔ کیا ابو طیب متنبی اُن شعرا میں شامل ہے، جن کا کلام فہم قرآن میں استشہاد کے لیے قابل قبول ہے؟
3۔ کیا شعر اور آیت کے مابین تالیفِ کلام یا اسلوب بیان کا کوئی اشتراک یا مشابہت موجود ہے؟
یہ تینوں سوال مسئلۂ زیرِ بحث کو سمجھنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ اِنھیں نظر انداز کر کے استشہاد کا طریقہ اختیار کرنا فہم قرآن اور زبان و بیان کے مسلمات کے منافی ہے۔
ہمارے نزدیک اِن تینوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے، لہٰذا متنبی کا محولہ شعر بہ طورِ استشہاد پیش نہیں کیا جا سکتا۔ تفصیل درجِ ذیل ہے۔
سورۂ بنی اسرائیل کی مذکورہ آیت میں کلام نے کوئی ایسا تقاضا نہیں کیا کہ لفظ یا اسلوب کو سمجھنے کے لیے کلام عرب سے استشہاد کرنا پڑے۔ کسی کلام میں اِس نوعیت کی ضرورت، ممکنہ طور پر، اُس وقت پیش آتی ہے، جب لفظ یا اسلوب غیر معروف ہو یا ایک سے زیادہ معنی کا احتمال رکھتا ہو یا اُس کی اپنے مفہوم پر دلالت قطعی نہ ہو یا وہ مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہو۔ درجِ بالا مباحث میں یہ بات پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ لفظ ’رؤیا‘ نہ شاذ ہے، نہ محتمل المعانی ہے اور نہ ظنی الدلالہ ہے۔[50] یہ عربی زبان کا نہایت معروف لفظ ہے اور ’’خواب‘‘ کے ایک ہی معنی میں مستعمل ہے۔ یہ جب بھی اورجہاں بھی استعمال ہوتا ہے، اپنے مفہوم اور اطلاق کو پوری طرح واضح کر دیتا ہے۔ قرآن و حدیث میں یہ جہاں جہاں بھی آیا ہے، اپنے اِسی معروف اور متداول مفہوم میں آیا ہے۔مزید یہ کہ اِس آیت میں یہ اپنے حقیقی مفہوم میں استعمال ہوا ہے، مجازی مفہوم میں استعمال نہیں ہوا۔ چنانچہ آیۂ زیر بحث میں اِس کے استعمال کے حوالے سے ادنیٰ درجے میں بھی کوئی ایسا تردد پیدا نہیں ہوتا کہ کلام کو سمجھنے کے لیے کلام سے باہر کسی چیز سے رجوع کرنا پڑے۔
ابو طیب متنبی کے حوالے سے یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ اُس کا شمار اُن شعرا میں نہیں ہوتا، جن کے کلام سے فہم قرآن میں استشہاد کیا جا سکتا ہے۔ یہ عباسی دور کا شاعر ہے اور عربی شاعری کے چار طبقات میں سے چوتھے طبقے میں شمار ہوتا ہے، جب کہ یہ مسلمہ ہے کہ قرآن و حدیث کی زبان میں استشہاد کے لیے ابتدائی دو طبقات کے شعرا ہی کے نظائر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ عربی زبان و ادب کے علوم و معارف کی معروف کتاب ’’خزانۃ الادب و لب لباب لسان العرب‘‘ میں عبدالقادر بن عمر البغدادی لکھتے ہیں:
الکلام الذي یستشهد به نوعان: شعر وغیرہ، فقائل الأول قد قسمه العلماء علی طبقات أربع: الطبقة الأولٰی: الشعراء الجاھلیون وھم قبل الإسلام کامرئ القیس والأعشٰی. الثانیة: المخضرمون وھم الذین أدرکوا الجاھلیة والإسلام کلبید وحسّان، الثالثة: المتقدمون، ویقال لھم الإسلامیون، وھم الذین کانوا في صدر الإسلام کجریر والفرزدق، الرابعة: المولدون ویقال لھم المحدثون، وھم من بعدھم إلی زماننا کبشار بن برد وأبي نواس. فالطبقتان الأولیان یستشهد بشعرھما إجماعًا. (1/ 5- 6) | ’’جس کلام سے زبان کے معاملے میں استشہاد کیا جاتا ہے، اُس کی دو قسمیں ہیں : ایک جو شعر کی صورت میں ہے اور دوسرا جو شعر کی صورت میں نہیں ہے۔ اِن میں سے پہلی قسم کو اہل علم نے چار طبقات میں تقسیم کیا ہے: پہلا طبقہ اسلام سے پہلے کے شعراے جاہلیت کا ہے، جیسے امرؤ القیس اور اعشیٰ۔ دوسرا مخضرمین کا ہے، جنھوں نے اسلام اور جاہلیت، دونوں کا زمانہ پایا، جیسے لبید اور حسان۔ تیسرے متقدمین ہیں، جنھیں اسلامیین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو اسلام کے دورِ اول میں ہوئے، مثال کے طور پر جریر اور فرزدق۔ چوتھے مولدین ہیں، جنھیں محدثین بھی کہتے ہیں۔ اِن میں وہ سب لوگ شامل ہیں، جو پہلے تین طبقات کے بعد ہمارے اِس زمانے تک ہوئے ہیں، جیسے بشار بن برد اور ابونواس۔ اِن میں سے پہلے دو طبقات کے بارے میں اجماع ہے کہ اُن کے اشعار سے استشہاد کیا جائے گا۔‘‘ |
جہاں تک شعر اور آیت کے مابین تالیفِ کلام یا اسلوب بیان کے اشتراک یا مشابہت کا تعلق ہے تو اُس کی سرے سے کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں لفظِ ’رُءۡیَا‘ اپنے حقیقی معنوں میں آیا ہے، جب کہ متنبی نے اِسے مجازی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ یہ بات نطق و بیان سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ استشہاد کی غرض سے لفظ کے حقیقی اور مجازی استعمالات ایک دوسرے کے لیے کارآمد نہیں ہو سکتے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی لفظ کو مجاز کے دائرے میں استعمال کیا جاتا ہے تو وہ اپنے معنی اور اطلاق میں حقیقی استعمال کے دائرے سے بالکل مختلف ہو جاتا ہے۔ وہ ایک اعتبار سے لفظ کا نیا استعمال ہوتا ہے، جو لفظ کے ابتدائی مفہوم سے الگ اور منفرد ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک کے مفہوم کا تعین کرنے کے لیے دوسرے کے استعمال کو بناے استدلال نہیں بنایا جا سکتا۔ اِس بات کو اردو زبان کے چند اشعار سے سمجھا جا سکتا ہے۔
’’ماں کا خواب‘‘ کے زیرِ عنوان علامہ اقبال کی ایک نظم کے ابتدائی شعر ملاحظہ کیجیے۔ اِن میں خواب کا لفظ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہوا:
میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب
یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں
اب اِسی لفظ ِ’خواب‘ کا مجازی استعمال علامہ ہی کے شعر میں دیکھیے۔’’خضر راہ‘‘ کا مشہورشعر ہے:
عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے
اے مسلماں، آج تو اُس خواب کی تعبیر دیکھ
اِس شعر میں شاعر ِمشرق نے دین اسلام کواپنے تصور میں مشخص کیا ہے اور پھر بتایا ہے کہ اُس نےانسانوں کی آزادی کا ایک خواب دیکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ اسلام کوئی شخصی وجود نہیں ہے کہ رات میں سوئے اور خوابوں کا مشاہدہ کرے۔ لہٰذا یہاں خواب کا لفظ حقیقی مفہوم میں نہیں، بلکہ فکر ونظر اور تصور و خیال (آئیڈیا) کے مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
میر تقی میر کا شعر دیکھیے:
ہوا ہے خواب ملنا اُس سے شب کا
کبھو آتا ہے وہ مہ خواب میں اب
اِس شعر میں لفظِ ’خواب‘ دو بار آیا ہے۔ پہلے محال ہونے کے مجازی معنوں میں اور پھر نیند میں دیکھنے کے حقیقی معنوں میں۔
اِن مثالوں سے ہرصاحبِ زبان سمجھ سکتا ہےکہ لفظ کا حقیقی اور مجازی استعمال کیا ہوتا ہے اور اِن میں سے ایک کو دوسرے کے لیے بہ طورِ مثال یا بہ طور ِتفہیم یا بہ غرضِ استشہاد استعمال نہیں کیا جا سکتا۔یہی معاملہ ہر زبان کے ہر اُس لفظ کا ہے، جو حقیقت اور مجاز، دونوں اسالیب کا حامل ہوتا ہے۔
اِس وضاحت کے بعد آئیے اب اِس بات کو سمجھ لیتے ہیں کہ ابو طیب متنبی کے شعر میں لفظ ’رؤیا‘ کیسے مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اِس مقصد کے لیے مناسب ہو گا کہ شعر کو اُس کے سیاق و سباق میں دیکھ لیا جائے:
إذا اعتل سيف الدولة اعتلت الأرض
ومن فوقها والناس والكرم المحض
’’جب سیف الدولہ بیمار ہوتا ہے تو گویا زمین بھی بیمار پڑ جاتی ہے اور جو کچھ اُس کے اوپر ہو، وہ بھی (رنج و الم کا شکار ہو جاتا ہے)۔ یعنی لوگ بھی اور خالص فیض و کرم بھی (بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں)۔‘‘
وكيف انتفاعي بالرقاد وإنما
بعلته يعتل في الأعين الغمض
’’اِس حالت میں میں نیند سے کیسے راحت پاتا،کیونکہ اُس (سیف الدولہ) کی بیماری نے تو نیند کو بھی آنکھوں میں بیمار کر دیا تھا۔ (اِس لیے نیند نہ آئی اور میں رات بھر جاگتا رہا اور سیف الدولہ تجھے تکتا رہا) ۔ ‘‘
’’اب رات تو گزر چکی ہے، مگر تیرے (دیدار کا ) فیض جاری ہے (آج کی رات اگر میں سو جاتا تو تیری دید کے خواب، بے شک میری نیند کو شیریں بنا دیتے)، مگر یہ جاگتی آنکھوں کا خواب(جس میں میں تجھے کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں)، میری آنکھوں کے لیےنیند (کے اُن خوابوں) سے کہیں زیادہ شیریں ہے۔‘‘
شعر کو پڑھیے تو یہ بہ ذاتِ خود بتا رہا ہے کہ یہاں ’رؤیا‘ کا لفظ مجازی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ نیند میں انسان میٹھے میٹھے خوابوں (رؤیا) کا نظارہ کرتا ہے، جن کی وجہ سے اُس کی نیند شیریں ہوتی ہے۔ اِس عام تجربے سےشاعر نے کنایہ کیاہے اور اپنے ممدوح کے لیے کہا ہے کہ میں ساری رات نیند کے میٹھے خواب دیکھنے کے بجاے جاگ کر تجھے تکتا رہا ہوں اور میرا یہ کھلی آنکھوں کا خواب (شیریں نظارہ) نیند کے خوابوں (رؤیا) سے بھی زیادہ میٹھا ہے۔ یہ اِس شعر کا مفہوم ہے،ما قبل کے شعروں سے بھی اِسی کی تائید ہوتی ہے۔
لفظوں کا مجازی استعمال زبان و بیان کا عام طریقہ ہے۔ ہر زبان اِس سے مزین ہے۔ ہم لفظ کو اُس کے حقیقی مفہوم سے اٹھاتے ہیں اور کسی اشتراک کو بنیاد بنا کر تشبیہ، استعارہ، کنایہ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں اور بالکل مختلف مفہوم میں استعمال کر لیتے ہیں۔ جب ہم اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ پاکستان شاعر مشرق کا خواب ہے یا اپنے بیٹے سے کہتے ہیں کہ میں نے تمھارے لیے بہت خواب دیکھے ہیں تو اِس سے مراد وہ خواب نہیں ہوتا، جو ہم نیند کے عالم میں دیکھتے ہیں۔ تفہیم مزیدکے لیے اردو کے چند اشعار دیکھ لیجیے، جن میں ’خواب‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اندازہ ہو گا کہ لفظ کا مجازی استعمال کس قدر مختلف اور متنوع پیراے اختیار کرتا ہے:
علامہ اقبال کا شعر ہے:
یہ حکم تھا کہ گلشن کن کی بہار دیکھ
ایک آنکھ لے کے خواب ِپریشاں ہزار دیکھ
اِس میں اقبال نے لفظِ ’خواب‘ کو آنکھ سے دیکھنے کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ یہ کنایے کا کم و بیش وہی اسلوب ہے، جو متنبی نے اپنے شعر میں اختیار کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قدرت نے انسان کو آنکھیں دے کر وحشت ناک خواب دیکھنے کے اسباب پیدا کر دیے ہیں۔ گویا شاعر نے یہاں آنکھوں سے خواب دیکھنے کی تعبیر اختیار کی ہے۔
ایک شعر میں ’جوانی‘ کو ’خواب‘ سے تعبیر کیا ہے:
لکھی جائیں گی کتابِ دل کی تفسیریں بہت
ہوں گی اے خواب جوانی، تیری تعبیریں بہت
مرزاغالب کا مشہور شعر ہے:
ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں
یہاں غالب نے خواب کے اندر جاگنے اور خواب کے اندر خواب دیکھنے کی بالکل منفرد صورتوں کی تصویر کشی کی ہے۔
میر کےدرجِ ذیل شعر میں خواب نیند کے مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے:
گزری ہے شب خیال میں خوباں کے جاگتے
آنکھیں لگا کے اُس سے میں ترسوں ہوں خواب کو
میر ہی کےدرج ذیل دو شعروں میں دل چسپ معاملہ دیکھیے کہ خواب لفظاً تو اپنے حقیقی مفہوم میں ہے، مگر معنًامجاز کے لیے استعمال ہوا ہے:
سن کان کھول کر کہ تنک جلد آنکھ کھول
غافل یہ زندگانی فسانہ ہے، خواب ہے
جو کچھ نظر پڑے ہے، حقیقت میں کچھ نہیں
عالم میں خوب دیکھو تو عالم ہے خواب کا
استاذِ مکرم ڈاکٹر خورشید رضوی نے اپنے ایک شعر میں خواب کو اُس کے حقیقی معنوں میں استعمال کیا ہے اور اُس کی کیفیت کو کمال خوبی سے واضح کیا ہے:
عالم خواب کا عقدہ نہیں کھلتا، یعنی
آنکھ باقی نہ رہے اور تماشا رہ جائے
ایک شعر میں اُنھوں نےکھلی آنکھوں کے وظیفے بصر و نظر کو عالم خواب کے لیے موثر اور عالم بیداری کے لیے غیر موثر مان کرعرفانِ ذات کے یک سر منفرد معنی پیدا کیے ہیں:
مری نگاہ نے خوابوں میں خود کو پہچانا
کہ جاگتے میں جو گزری، وہ بے بصرگزری
استاذِ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی نظم کا ایک بند ملاحظہ کیجیے۔ اِس میں خواب کو حقیقی اور مجازی، دونوں معانی میں استعمال کیا ہےاور عالم خواب اور عالم بیداری کے خیالات کی مضمون آفرینی سے قلبی واردات کو نمایاں کیا ہے:
مرے ندیم، کئی بار آخرِ شب میں
مرے چراغ کی لو میں بنی تری تصویر
کنارِ آب چناروں میں ڈوب کر ابھری
خیالِ خواب میں خوابِ خیال کی تعبیر
خواب کے بارے میں یہ عام تجربہ ہے کہ جاگنے کے بعد وہ یادداشت سے محو ہو جاتا ہے۔ اِسی بنا پر بھولی بسری بات کو مجازاً ’خواب‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اردو زبان میں اِس کے لیے خواب و خیال کی ترکیب مستعمل ہے۔ استاذِ گرامی کا شعر ہے :
نہ وہ زماں ہے، نہ وہ مکاں ہے، عجیب منظر بدل رہا ہے
ہوا ہے خواب و خیال وہ بھی، جو تھا کبھی دیدہ و شنیدہ
یہ مجاز و حقیقت کی چند مثالیں ہیں۔ اِن کا مزید استقصا کیا جائے تو بہت سے صفحے سیاہ کیے جاسکتے ہیں۔خاتمۂ کلام کے طور پر جدید دور کی شاعرہ پروین شاکر کی غزل کے دو شعرملاحظہ کر لیجیے۔ اِن میں لفظِ ’خواب‘ کو خوش نما مناظر کے لیے بہ طورِ کنایہ استعمال کیا ہے۔ یہ ویسا ہی اسلوب ہے، جیسے متنبی نے لفظ ’رؤیا‘سے اپنے ممدوح کے خوش نما دیدار کے لیے کنایہ کیا ہے:
آنکھوں سے میری، کون مرے خواب لے گیا
چشم صدف سے گوہر نایاب لے گیا
کچھ کھوئی کھوئی آنکھیں بھی موجوں کے ساتھ تھیں
شاید اُنھیں بہا کے کوئی خواب لے گیا
اِس تفصیل سے یہ پہلو پوری طرح واضح ہو گیا ہے کہ کسی لفظ کا معروف اور مستعمل معنی سے مختلف معانی میں استعمال دیکھ کر یہ حکم لگانا کہ یہ لفظ فلاں فلاں معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور پھر اِسے کسی دوسرے کلام کے لیے بہ طورِشہادت پیش کرنا زبان و بیان کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔ اگر اِس طریقے کو فہم کلام کے اصولوں میں شامل کر لیا جائے تو درجِ بالا اشعار کی بنا پر لفظِ ’خواب‘ کے معنی کی فہرست میں آنکھوں سے دیکھنے، نیند میں جاگنے، کسی کام کے محال ہونے،کسی چیز کے معدوم ہونے، کسی بات کے بھول جانے اور اِسی طرح کے بے شمار مفاہیم کا اضافہ کرنا ہو گا۔
یہ ایسے ہی ہے کہ ہم غالب کا مصرع پڑھیں کہ ــــــ غالب کو برا کہتے ہو، اچھا مرے آگےــــــ اور اُس کا مفہوم یہ بتائیں کہ آپ غالب کو دوسروں کے سامنے تو برا کہتے ہیں، مگر میرے سامنے اچھا کہتے ہیں، اِسی طرح اقبال کا مصرع پڑھیں کہ ــــــ جوے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی ــــــ اور پھر یہ اصرار کریں کہ زندگی کے معنی حیات کے علاوہ دودھ کی نہر، پتھر تراشنے کا تیشہ اور چٹان بھی ہیں۔ یہ زبان و بیان کا خون ہے، جو وہی شخص کرسکتا ہے، جو اِسے نطق کے بجاے منطق کے طریقے پر سمجھتا ہے۔
اِس بحث میں مزید برآں، یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اِس کا فیصلہ کہ کلام میں کوئی لفظ حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہے یا مجازی معنوں میں، خود کلام کرتا ہے۔ سامع، قاری، شارح، مترجم، مفسر، کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اپنی جانب سے یا اپنی راے سے مفہوم کا تعین کرے۔ یہ متکلم کے منہ میں اپنی بات ڈالنے اور اُس کے منشا کو متغیر کرنے کے مترادف ہے، جس کی زبان وبیان میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔
یہاں بعض لوگ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ کلام کیسے بتاتا ہے کہ اُس میں فلاں لفظ فلاں معنی میں استعمال ہوا ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ کلام کے موقع و محل میں یا اُس کے سیاق و سباق میں یا جملوں کی تالیف میں یا اسلوب بیان میں ایسے قرائن موجود ہوتے ہیں، جو پوری صراحت کے ساتھ لفظ کے مدعا و مفہوم کو متعین کر دیتے ہیں۔ یہی قرائن ہوتے ہیں، جو فہم کے اختلاف میں فیصلے کے لیے دلائل کا فائدہ دیتے ہیں۔ اِنھی کی بنا پر ہم کلام کے اسما و افعال کے مفاہیم طے کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ مثال کے طور پر شیر کا اسم فلاں جملے میں جنگل کے جانور کے لیے اور فلاں میں بہادر انسان کے لیے استعمال ہوا ہے،آفتاب و ماہ تاب فلاں جگہ اجرام فلکی کے لیے اور فلاں جگہ محبوب و ممدوح کے لیے آئے ہیں اور خواب فلاں جگہ سپنے کے لیے، فلاں جگہ تصور کے لیے اور فلاں جگہ نیند کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یہی معاملہ افعال کا ہے۔ مثلاً، سونے اورجاگنے کے افعال نیند اور بیداری کے ساتھ ساتھ غافل ہونے اور سرگرم ہونے کے معنوں میں ہر زبان میں استعمال ہوتےہیں۔
زبان و بیان کے اِنھی پہلوؤں کی تفہیم کے لیے ’’میزان‘‘ کا درجِ ذیل اقتباس مفید ہو سکتا ہے:
’’... دنیا کی ہر زندہ زبان کے الفاظ و اسالیب جن مفاہیم پر دلالت کرتے ہیں، وہ سب متواترات پر مبنی اور ہر لحاظ سے بالکل قطعی ہوتے ہیں۔ لغت و نحو اور اِس طرح کے دوسرے علوم اِسی تواتر کو بیان کرتے ہیں۔ اِس میں نقل کرنے والوں کا صدق و کذب اور اُن کی تعداد سرے سے زیر بحث ہی نہیں ہوتی۔ جن الفاظ و اسالیب کو شاذ اور غریب کہاجاتا ہے،وہ بھی اپنے مفہوم کے لحاظ سے نہیں، بلکہ اپنے استعمال کی قلت و کثرت، اور سننے اور پڑھنے والوں کے علم و اطلاع کے لحاظ سے شاذ اور غریب کہلاتے ہیں۔ لفظ اور معنی کا سفر کبھی الگ الگ نہیں ہوتا، وہ جب تک مستعمل رہتا ہے، اپنے معنی کے ساتھ مستعمل رہتا ہے۔ ہم کسی لفظ کے مفہوم سے ناواقف ہو سکتے ہیں اور اُس کی تعیین میں غلطی بھی کر سکتے ہیں،لیکن وہ اپنے مفہوم کی قطعیت کے بغیر ہی مستعمل ہے یا کسی دور میں مستعمل رہا ہے، اِس کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ مجاز، کنایہ اور اجمال و تخصیص وغیرہ کے مواقع کا شعور بھی اِسی طرح متواتر ہے۔دنیا کی سب زبانوں میں یہ انسان کا مشترک سرمایہ ہے۔ ’شیر جنگل کا بادشاہ ہے‘ اور ’ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‘—اِن جملوں میں مجاز اور حقیقت کو الگ الگ پہچاننے میں کوئی فرد تو بے شک، غلطی کر سکتا ہے، لیکن انسان کا یہ اجتماعی شعور کبھی متردد نہیں ہوتا اور ہم اِسی کی روشنی میں فرد کو اُس کی غلطی پر متنبہ کرتے ہیں۔ زبان سے متعلق یہی حقیقت ہے، جس کی بنا پر ہم جو کچھ بولتے اور لکھتے ہیں، اِس اعتماد کے ساتھ بولتے اور لکھتے ہیں کہ دوسرے اُس سے وہی کچھ سمجھیں گے، جو ہم کہنا چاہتے ہیں۔دنیا میں ہر روز جو دستاویزات لکھی جاتی ہیں،جو فیصلے سنائے جاتے ہیں، جو احکام جاری کیے جاتے ہیں،جو اطلاعات بہم پہنچائی جاتی ہیں اور جن علوم کا ابلاغ کیا جاتا ہے، اُن کے بارے میں ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال اگر پیدا ہو جائے کہ اُن کے الفاظ کی دلالت اپنے مفہوم پر قطعی نہیں ہے تو اُن میں سے ہر چیز بالکل بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔‘‘
(32-33)
____________