ضمیمہ 7

قتادہ کی حضرت انس بن مالک سے روایت

نسائی، رقم 448

اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثنا هشام الدستوائي، قال: حدثنا قتادة، عن انس بن مالك عن مالك بن صعصعة أن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم قال: ’’بينا أنا عند البيت بين النائم واليقظان، إذ أقبل أحد الثلاثة بين الرجلين، فاتيت بطست من ذهب ملآن حكمةً وإيمانًا فشق من النحر إلى مراق البطن فغسل القلب بماء زمزم ثم ملئ حكمةً وإيمانًا.

’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ، مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کعبہ کے پاس نیم خواب اور نیم بیداری میں (لیٹا ہوا) تھا۔ اِسی اثنا میں میرے پاس تین افراد آئے۔ اِن تینوں میں سے ایک جو دو کے درمیان میں تھا،میری طرف آیا۔ پھر میرے پاس حکمت و ایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لایا گیا۔ اُس نے میرا سینہ حلقوم سے پیٹ کے نچلے حصہ تک چاک کیا، پھر دل کو آب زم زم سے دھویا اور اُسے حکمت و ایمان سے بھر دیا۔

ثم أتيت بدابة دون البغل وفوق الحمار، ثم انطلقت مع جبريل عليه السلام فاتينا السماء الدنيا، فقيل: من هذا؟ قال: جبريل، قيل: ومن معك؟ قال: محمد، قيل: وقد أرسل إليه، مرحبًا به ونعم المجيء جاء، فأتيت على آدم عليه السلام فسلمت عليه، قال: مرحبًا بك من ابن ونبي.

اِس کے بعد میرے پاس خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا ایک جانور لایا گیا اور میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ روانہ ہوا۔ پھر آسمانِ دنیا پر پہنچے۔ پوچھا گیا کہ کون ہے؟ جواب دیا: جبریل ہوں۔ پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ جبریل نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں۔ پوچھا گیا: کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ (جبریل نے اثبات میں جواب دیا تو کہا گیا): مرحبا، اُن کی تشریف آوری مبارک ہو۔ پھر میں آدم علیہ السلام کے پاس پہنچا اور اُنھیں سلام کیا، اُنھوں نے کہا: خوش آمدید اے بیٹے اور نبی!

ثم اتينا السماء الثانية، قيل: من هذا؟ قال: جبريل، قيل: ومن معك؟ قال: محمد، فمثل ذلك، فاتيت على يحيى، وعيسى فسلمت عليهما، فقالا: مرحبا بك من أخ ونبي.

پھر ہم دوسرے آسمان پر پہنچے، پوچھا گیا کہ کون ہے؟ جواب دیا: جبریل ہوں، پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ جبریل نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں۔ یہاں بھی اُسی طرح ہوا (جیسا کہ پہلے آسمان پر ہوا تھا)۔ یہاں میں عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا اور دونوں کو سلام کیا، دونوں نے کہا: خوش آمدید تمھیں اے بھائی اور نبی!

ثم اتينا السماء الثالثة، قيل: من هذا؟ قال: جبريل، قيل: ومن معك؟ قال: محمد، فمثل ذلك، فأتيت على يوسف عليه السلام فسلمت عليه، قال: مرحبًا بك من أخ ونبي.

پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے۔ پوچھا گیا کہ کون ہے؟ جواب دیا: جبریل ہوں، پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ جبریل نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں۔ یہاں بھی اُسی طرح ہوا (جیسا کہ پہلے آسمان پر ہوا تھا)۔ یہاں میں یوسف علیہ السلام سے ملا اور اُنھیں سلام کیا۔ اُنھوں نے کہا: خوش آمدید تمھیں اے بھائی اور نبی!

ثم أتينا السماء الرابعة، فمثل ذلك، فأتيت على إدريس عليه السلام فسلمت عليه، فقال: مرحبًا بك من أخ ونبي.

پھر ہم چوتھے آسمان پر آئے، وہاں بھی اِسی طرح ہوا (جیسا پچھلے آسمانوں پر ہوا تھا)۔ یہاں میں ادریس علیہ السلام سے ملا اور اُنھیں سلام کیا۔ انھوں نے کہا: خوش آمدید تمھیں اے بھائی اور نبی!

ثم أتينا السماء الخامسة، فمثل ذلك، فأتيت على هارون عليه السلام فسلمت عليه، قال: مرحبًا بك من أخ ونبي.

پھر ہم پانچویں آسمان پر آئے۔ یہاں بھی ویسا ہی ہوا،(جیسا پچھلے آسمانوں پر ہوا تھا)۔ یہاں میں ہارون علیہ السلام کے پاس آیا اور اُنھیں سلام کیا۔ اُنھوں نے کہا: خوش آمدید تمھیں اے بھائی، اور نبی!

ثم أتينا السماء السادسة، فمثل ذلك، ثم أتيت على موسى عليه السلام فسلمت عليه، فقال: مرحبًا بك من أخ ونبي، فلما جاوزته بكى، قيل: ما يبكيك؟ قال: يا رب، هذا الغلام الذي بعثته بعدي يدخل من أمته الجنة اكثر وأفضل مما يدخل من أمتي.

پھر ہم چھٹے آسمان پر آئے۔ یہاں بھی ویسا ہی ہوا، (جیسا پچھلے آسمانوں پر ہوا تھا)۔ یہاں میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا اور اُنھیں سلام کیا۔انھوں نے کہا: خوش آمدید تمھیں اے بھائی اور نبی! پھر جب میں اُن سے آگے بڑھا تو وہ رونے لگے۔ اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کو کون سی چیز رلا رہی ہے؟ اُنھوں نے کہا: پروردگار، یہ لڑکا جسے تو نے میرے بعد بھیجا ہے، اُس کی امت سے جنت میں داخل ہونے والے لوگ میری امت کے داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ ہوں گے اور افضل ہوں گے۔

ثم أتينا السماء السابعة، فمثل ذلك، فأتيت على إبراهيم عليه السلام، فسلمت عليه، فقال: مرحبًا بك من ابن ونبي.

اِس کے بعد ہم ساتویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا۔ یہاں میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا اور اُنھیں سلام کیا۔ اُنھوں نے کہا: خوش آمدید اے بیٹے اور نبی!

ثم رفع لي البيت المعمور، فسألت جبريل، فقال: هذا البيت المعمور يصلي فيه كل يوم سبعون الف ملك فإذا خرجوا منه لم يعودوا فيه آخر ما عليهم، ثم رفعت لي سدرة المنتهى فإذا نبقها مثل قلال هجر وإذا ورقها مثل آذان الفيلة وإذا في أصلها أربعة أنهار نهران باطنان ونهران ظاهران، فسألت جبريل، فقال: أما الباطنان ففي الجنة وأما الظاهران فالفرات والنيل.

اِس کے بعد بیت المعمور کو میرے قریب کر دیا گیا۔ میں نے (اِس کے متعلق) جبریل سے پوچھا تو اُنھوں نے کہا: یہ بیت المعمور ہے۔ اِس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں۔ جب وہ اِس سے نکلتے ہیں تو پھر دوبارہ اِس میں داخل نہیں ہوتے۔ یہی اُن کا آخری داخلہ ہوتا ہے۔ پھر سدرۃ المنتہیٰ کو میرے سامنے کر دیا گیا۔ اِس کے بیر حجرکے مٹکوں جیسے اور اِس کے پتے ہاتھی کے کانوں جیسے تھے۔ اِس کی جڑ سے چار نہریں نکل رہی تھیں۔ دو نہریں ڈھانپی ہوئی تھیں اور دو کھلی ہوئی تھیں۔ میں نے جبریل سے اِن کے بارے میں پوچھا تو اُنھوں نے کہا: ڈھانپی ہوئی نہریں تو جنت میں ہیں اور کھلی نہریں فرات اور نیل ہیں۔

ثم فرضت علي خمسون صلاةً فأتيت على موسى، فقال: ما صنعت؟ قلت: فرضت علي خمسون صلاةً، قال: إني أعلم بالناس منك، إني عالجت بني إسرائيل أشد المعالجة وإن أمتك لن يطيقوا ذلك فارجع إلى ربك فأساله أن يخفف عنك، فرجعت إلى ربي فسألته أن يخفف عني فجعلها أربعين، ثم رجعت إلى موسى عليه السلام، فقال: ما صنعت؟ قلت: جعلها أربعين، فقال لي مثل مقالته الاولى، فرجعت إلى ربي عز وجل فجعلها ثلاثين، فأتيت على موسى عليه السلام فأخبرته، فقال لي مثل مقالته الاولى، فرجعت إلى ربي فجعلها عشرين ثم عشرةً ثم خمسةً، فأتيت على موسى عليه السلام، فقال لي مثل مقالته الاولى، فقلت: إني أستحي من ربي عز وجل أن ارجع إليه، فنودي أن قد أمضيت فريضتي وخففت عن عبادي وأجزي بالحسنة عشر أمثالها‘‘.

پھر میرے اوپر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ واپسی کے سفر میں میں جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچاتو اُنھوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میرے اوپر پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں۔ اُنھوں نے کہا: میں لوگوں کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں، میں بنی اسرائیل کو خوب جھیل چکا ہوں، آپ کی امت اِس کی طاقت نہیں رکھتی۔ لہٰذا آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور درخواست کریں کہ اِن میں تخفیف کر دے۔ چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس آیا اور تخفیف کی گزارش کی۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے منظور کرتے ہوئے چالیس نمازیں کر دیں۔ پھر جب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس پہنچا تو اُنھوں نے پوچھا کہ آپ نے کیا معاملہ کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے نمازوں کی تعداد چالیس کر دی ہے۔ اِس پر اُنھوں نے مجھ سے وہی بات کہی، جو پہلی بار کہی تھی۔ میں پھر اپنے رب عز وجل کے پاس واپس حاضر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اُنھیں تیس کر دیا۔پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا، اور اُنھیں اِس کی خبر دی۔ اُنھوں نے پھر وہی بات کہی، جو پہلے کہی تھی۔ چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس گیا تو اُس نے اُنھیں بیس پھر دس اور پھر پانچ کر دیا۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو اُنھوں نے پھر وہی بات کہی، جو پہلے کہی تھی تو میں نے کہا: (اب مجھے) اپنے رب عزوجل کے پاس (بار بار) جانے سے شرم آ رہی ہے۔ اِس پر ندا آئی: میں نے اپنا فریضہ نافذ کر دیا ہے، اور اپنے بندوں کے لیے تخفیف کر دی ہے اور میں نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں۔‘‘

____________