4۔شرک

اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات یا اُس کی  تدبیرِ امور میں کسی کو  حصہ دار سمجھنا شرک ہے۔ یہ’اثم‘ (حق تلفی)  اور ’بَغۡی‘ (ناحق زیادتی) کا مجموعہ ہے۔ ’اثم‘ (حق تلفی)  اِس لیے  کہ یہ اللہ ہی کا حق ہے کہ اُسے الٰہ، معبودِ حقیقی  اور قادرِ مطلق مانا جائے۔  اگر کوئی شخص  کسی کو اللہ کی ذات سے یا  اللہ کو کسی کی ذات سے سمجھتا ہے یا  خلق میں  یا  مخلوقات کی تدبیرِ امور میں کسی کا کوئی حصہ مانتا ہے تو وہ  گویا اُسے  کسی نہ کسی درجے میں اللہ کا ہم سر تسلیم کر لیتا ہے۔’بَغۡی‘ (ناحق زیادتی) اِس بنا پر کہ یہ افترا علی اللہ ہے۔ یہ اللہ کی نسبت سے  ایسی بات ہے، جو نہ اللہ نے فرمائی  ہے، نہ علم و عقل کے مطابق ہے اور نہ دین و اخلاق کی رو سے جائز ہے۔ اِسے ایک الگ حرمت کے طور پر بیان کرنے کا باعث اِس کی نہایت  درجہ شناعت ہے۔

    اللہ کے دین میں یہ سب  سےبڑا جرم ہے۔ اِس سے بڑا جرم کیا ہو گا  کہ اللہ کا تخلیق کردہ کوئی انسان، اللہ کی زمین پر، اللہ کی  مخلوق  کو، اللہ کے اِذن کے بغیر،اللہ کا ہم سر ٹھہرائے اور اِس صریح جھوٹ کو اللہ ہی کی نسبت سے بیان کرے۔ یہ حق سے انحراف، عدل و انصاف کی نفی اور بدترین زیادتی ہے۔ اِسی بنا پر قرآن نے اِسے’افترا   ‘اور’گناہ ِعظیم  ‘ قرار  دیا ہےاور اِس کے مرتکب  کے لیے بخشش کا ہر دروازہ بند کر دیا ہے۔ ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ، وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا. اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ یُزَکُّوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا.  اُنۡظُرۡ کَیۡفَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ ؕ وَ کَفٰی بِہٖۤ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا.

(النساء 4:  48- 50)

 ’’اللہ اِس بات کو نہیں بخشے گا کہ (جانتے بوجھتے کسی کو) اُس کا شریک ٹھیرایا جائے۔اِس کے نیچے، البتہ جس کے لیے جو گناہ چاہے گا، (اپنے قانون کے مطابق) بخش دے گا، تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو (شرک جیسے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں اور اِس کے باوجود) اپنے آپ کو پاکیزہ ٹھیراتے ہیں۔ ہرگز نہیں، بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے (اپنے قانون کے مطابق) پاکیزگی عطا کرتا ہے۔  (یہ اپنے کرتوتوں کی سزا لازماً بھگتیں گے) اور اِن پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اِنھیں دیکھو، (اپنے اِن دعووں سے) یہ اللہ پر کیسا افترا باندھ رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ صریح گناہ ہونے کے لیے تو یہی کافی ہے۔‘‘

شرک کی حقیقت کیا ہے؟ استاذ ِگرامی نے اِس کی وضاحت میں لکھا ہے:

...’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو الٰہ بنایا جائے تو قرآن اپنی اصطلاح میں اُسے ’شرک‘ سے تعبیر کرتاہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ کسی کو خدا کی ذات سے یا خدا کو اُس کی ذات سے سمجھاجائے یا خلق میں یا مخلوقات کی تدبیر امورمیں کسی کا کوئی حصہ مانا جائے اوراِس طرح کسی نہ کسی درجے میں اُسے اللہ تعالیٰ کا ہم سر بنادیا جائے۔

پہلی صورت کی مثا ل سیدنا مسیح، سیدہ مریم اورفرشتوں کے بارے میں عیسائیوں اور مشرکین عرب کے عقائد ہیں۔ صوفیانہ مذاہب کا عقیدۂ وحدت الوجود بھی اِسی قبیل سے ہے۔

دوسری صورت کی مثال ہندوؤں میں برہما، وشنو، شیو اورمسلمانوں میں غوث، قطب،ابدال، داتا اور غریب نواز جیسی ہستیوں کا عقیدہ ہے۔ ارواح خبیثہ، نجوم و کواکب اورشیاطین کے تصرفات پرایمان کو بھی اِسی کے ذیل میں سمجھنا چاہیے۔‘‘ (میزان 210)

-