چارحرمتوں کی تعیین کا حکم
مردار، خون، سؤر کےگوشت اور اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح\n کیے گئے جانور کی حرمت کا حکم سورۂ بقرہ ، سورۂ مائدہ، سورۂ انعام اور سورۂ نحل میں بیان ہوا\n ہے۔ ارشاد ہے:
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ\n وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ.
(البقرہ 2: 173)
’’ اُس نے تو تمھارے لیے صرف مردار اور خون اور سؤر کا گوشت\n اور غیراللہ کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھیرایا ہے۔‘‘
حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ وَ\n لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ.
(المائدہ 5:3)
’’ایمان والوتم پر مردار اور خون اور سؤر کا گوشت\n اور خدا کے سوا کسی اور کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھیرایا گیا ہے۔ ‘‘
قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ\n مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا\n اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ ، فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ.
(الانعام 6: 145)
’’اِن سے کہہ دو، (اے پیغمبر کہ) جو وحی میرے پاس\n آئی ہے، اُس میں تو میں نہیں دیکھتا کہ کسی کھانے والے پر کوئی چیز حرام کی گئی ہے،جسے وہ کھاتا\n ہے،سواے اِس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو، اِس لیے کہ یہ ناپاک\n ہیں، یا خدا کی نافرمانی کرکے کسی جانور کو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا\n ہو۔‘‘
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ\n الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ\n غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ.(النحل 16:115)
’’اُس نے تو تم پر صرف مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ\n حرام ٹھیرایا ہے۔ اِس پر بھی جو مجبور ہو جائے، اِس طرح کہ نہ چاہنے والا ہو، نہ حد سے\n بڑھنے والا تو اُس پر کچھ گناہ نہیں، اِس لیے کہ اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔\n ‘‘
اِن مقامات کے مطالعے سے یہ نکات واضح ہوتے ہیں:
1۔جانوروں سے متعلق حلت و حرمت کے حوالے سے شریعت نے\n فقط اِنھی چار چیزوں کو موضوع بنایا ہے۔بقرہ اور نحل میں اِس تحدید کے لیے\n ’اِنَّمَا‘ کا لفظ آیا ہے اور انعام میں یہ بات\n ’اِلَّا‘ کے لفظ سے ادا ہوئی ہے۔ یعنی ایک اسلوب یہ ہے کہ\n ’’اللہ نے صرف اِن چارچیزوں کوحرام ٹھہرایا ہے‘‘ اور دوسرا اسلوب یہ ہے کہ ’’اللہ نے اِن چار کے علاوہ کسی\n چیز کو حرام نہیں ٹھہرایا۔‘‘استاذ ِ گرامی لکھتے ہیں:
’’جانوروں کی حلت و حرمت میں شریعت کا موضوع\n اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں۔ قرآن نے اِسی بنا پربعض جگہ’قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ\n اُوْحِیَ اِلَیَّ‘ اور بعض جگہ’اِنَّمَا‘ کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی\n ہیں۔ یعنی اُن میں سے حرام قرار دی ہیں، جنھیں لوگ طیبات خیال کرکے کھا سکتے تھے۔‘‘
(میزان 37)
2۔ اِن چاروں حرمتوں کا تعلق پالتو چوپایوں سے ہے۔ سورۂ انعام میں\n اِس حکم کے سیاق و سباق سے اِسی امر کی وضاحت ہوتی ہے ۔ ماقبل آیات میں اِنھی جانوروں کی بعض قسموں کا ذکر\n ہے ، جنھیں اہل عرب نے اپنے مشرکانہ توہمات کی بنا پر حلال یا حرام ٹھہرا رکھا تھا۔ ارشاد فرمایا\n ہے:
ثَمٰنِیَۃَ اَزۡوَاجٍ ۚ مِنَ الضَّاۡنِ اثۡنَیۡنِ وَ\n مِنَ الۡمَعۡزِ اثۡنَیۡنِ ؕ قُلۡ ءٰٓالذَّکَرَیۡنِ حَرَّمَ اَمِ الۡاُنۡثَیَیۡنِ اَمَّا\n اشۡتَمَلَتۡ عَلَیۡہِ اَرۡحَامُ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ؕ نَبِّـُٔوۡنِیۡ بِعِلۡمٍ اِنۡ کُنۡتُمۡ\n صٰدِقِیۡنَۙ. وَ مِنَ الۡاِبِلِ اثۡنَیۡنِ وَ مِنَ الۡبَقَرِ اثۡنَیۡنِ ؕ قُلۡ ءٰٓالذَّکَرَیۡنِ\n حَرَّمَ اَمِ الۡاُنۡثَیَیۡنِ اَمَّا اشۡتَمَلَتۡ عَلَیۡہِ اَرۡحَامُ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ؕ اَمۡ\n کُنۡتُمۡ شُہَدَآءَ اِذۡ وَصّٰکُمُ اللّٰہُ بِہٰذَا ۚ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی\n اللّٰہِ کَذِبًا لِّیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ\n الظّٰلِمِیۡنَ.
(6: 143- 144)
’’(تم اِن چوپایوں میں سے) آٹھ نر و مادہ کو لو، دو بھیڑ کی\n قسم سے اور دو بکری کی قسم سے، پھر اِن سے پوچھو کہ اللہ نے اِن دونوں کے نر حرام کیے ہیں یا\n مادہ یا اُس بچے کو حرام ٹھیرایا ہے جو مادینوں کے پیٹ میں ہے؟ مجھے کسی سند کے ساتھ بتاؤ، اگر\n تم سچے ہو؟اِسی طرح دو اونٹ کی قسم سے اور دو گاے کی قسم سے، پھر پوچھو کہ اللہ نے اِن دونوں کے\n نرحرام کیے ہیں یا مادہ یا اُس بچے کو حرام ٹھیرایا ہے جو مادینوں کے پیٹ میں ہے؟ کیا تم اُس\n وقت حاضر تھے، جب اللہ نے تمھیں اِس کی ہدایت فرمائی تھی؟ پھر اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا\n جو اللہ پر جھوٹ باندھے، اِس لیے کہ بغیر کسی علم کے لوگوں کو گم راہ کرے؟ اللہ ایسے ظالم لوگوں\n کو کبھی راستہ نہیں دکھائے گا۔‘‘
امام امین احسن اصلاحی اِن آیات کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’یہ معروف چوپایے، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، چار تھے۔ بھیڑ،\n بکری، اونٹ اور گاے۔ اِن کے جوڑے کے افراد نر اور مادہ ،دونوں کو الگ الگ گنیے تو یہ سب آٹھ ہو جائیں گے۔ فرمایا\n کہ اِن آٹھوں کو لو اور اِن میں سے ہر ایک کے نر و مادہ کو لے کر اِن لال بجھکڑوں سے پوچھو کہ بتائیں، اِن میں\n سے نر کو خدا نے حرام ٹھہرایا ہے یا مادہ کو یا مادہ کے پیٹ میں جو بچہ ہے، اُس کو؟ مطلب یہ ہے کہ جب اصلاً یہ\n جانور، اِن کے نر و مادہ ،دونوں، پیٹ کے بچہ سمیت، حلال ہیں، اِن میں سے کسی کی حرمت کا دعویٰ یہ نہیں کر سکتے\n تو پھر اِنھی کے بعض اجزا پر یہ حرمت کہاں سے طاری ہو جاتی ہے کہ بعض کا کھانا جائز ہو جاتا ہے، بعض پر سواری\n حرام ہو جاتی ہے، بعض کو صرف مرد ہی کھا سکتے ہیں اور بعض کو مخصوص حالات پیدا ہو جانے کے بعد دونوں کھا سکتے\n ہیں۔ عقل و فطرت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر درخت مباح ہے تو اُس کا پھل بھی مباح ہو۔ یہ کیا بے تکی بات ہے کہ\n درخت تو مباح ہے، لیکن اُس کی ایک شاخ کا پھل حرام ہے یا مردوں کے لیے تو یہ حلال ہے، لیکن عورتوں کے لیے حرام\n ہے یا اتنے پھل دینے تک تو وہ حلال ہے، لیکن اتنے پھل دے چکنے کے بعد اُس پر حرمت طاری ہو جاتی ہے۔‘‘ (تدبر\n قرآن 3/ 188 )
3۔سورۂ انعام کی مذکورہ آیت میں ’عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗ‘(کھانے والے پر جسے وہ کھاتا ہے) کے\n الفاظ اِس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ اِس حکم کا تعلق درندوں کی نوعیت کے جانوروں سے\n نہیں ہے۔ اِن کا تعلق انعام کی نوعیت کےچوپایوں سےہے، جنھیں انسان طیبات کے زمرے میں شمار کرتا ہے۔\n استاذِ گرامی لکھتے ہیں:
’’...(’عَلٰی طَاعِمٍ\n یَّطْعَمُہٗ‘ کے الفاظ) سے وہ چیزیں آپ سے آپ نکل گئیں، جو ممنوعات فطرت ہیں اور انسان\n ہمیشہ سے جانتا ہے کہ وہ کوئی کھانے کی چیز نہیں ہیں، مثلاً شیر، چیتے، ہاتھی، چیل، کوے، گد، عقاب، سانپ اور\n بچھو وغیرہ۔ یہی معاملہ بعض دوسرے خبائث کا بھی ہے۔‘‘(البیان 2/109)
4۔اِن کی تعیین کا سبب یہ اندیشہ ہے کہ لوگ اِن میں موجود خبث کے باوجود\n اِنھیں طیبات پر محمول کر کے کھا سکتے ہیں۔ مردار کو اِس لیے طیب سمجھ سکتے ہیں کہ جان تلفی کے پہلو\n سے اِس میں اور ذبیحہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ خون کو اِس پہلو سے کھا سکتے ہیں کہ یہ کھانے والے گوشت کی\n رگوں اور ریشوں میں بھی سرایت رہتا ہے اور اِس بنا پر انسان کی غذا کا حصہ تصور کیا ہے۔ سؤر کو اِس لیے حلال\n سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ یہ انعام کی قسم کے چوپایوں میں سے ہے ، جنھیں انسان طیبات میں شمار کرتا ہے۔ غیر\n اللہ کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کو اِس لیے جائز گردان سکتے ہیں کہ اِس میں جان لینے کا وہی طریقہ\n اختیار کیا جاتا ہے، جو اللہ کا نام لے کر جانور کو ذبح کرنے کے لیے معروف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِن\n التباسات کو دور فرما دیا اور اِن کی حرمت کا حکم صادر کر دیا۔
حرمت کے اِس حکم کا اصل سبب خبائث کی شناعت کا وہی اصول ہے، جو انسانوں\n کی فطرت میں ودیعت ہے اور جسے ’وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ\n الْخَبٰٓئِثَ‘ کے الفاظ میں قرآن نے بھی بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ اِن چار چیزوں میں\n خبث کی نوعیت کو انسان اپنے فطری شعور کی روشنی میں بہ ادنیٰ تامل سمجھ سکتا ہے۔\n استاذِ گرامی نے آیۂ نحل کی تفسیر میں اِس کی تصریح کر دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’...اُن چیزوں\n میں سے جنھیں کھانے والے من جملہ طیبات سمجھ کر کھا سکتے تھے، یہی چار چیزیں حرام ٹھیرائی ہیں۔ خون کو اِس لیے\n کہ درندگی کی طرف مائل کرتا ہے، مردار کو اِس لیے کہ طبعی موت مرنے سے خون رگوں ہی میں رہ جاتا ہے، سؤر کو اِس\n لیے کہ اگرچہ انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہے، مگر درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے اور ذبیحہ لغیر اللہ کو اِس\n لیے کہ یہ صریح شرک ہے جس کا ارتکاب وہی کر سکتے ہیں جو خدا سے سرکش ہو گئے ہوں۔ رہے خبائث تو اُن کے لیے کسی\n تعیین و تصریح کی ضرورت نہیں ہے، اِس لیے کہ وہ ممنوعات فطرت ہیں اور انسان ہمیشہ سے جانتا ہے کہ اُن سے اُس کو\n اجتناب کرنا ہے۔‘‘(البیان 3/54)