خلاصۂ تصنیف

حلال و حرام: مسائل اور مباحث

1۔’حرام‘ اور ’حلال‘ شریعت کی اصطلاحات ہیں۔ حرام  وہ چیزیں ہیں، جن سے روکا گیا ہے، جن سے نہیں روکا  گیا، وہ سب حلال  ہیں۔  

2۔ ’’حلال و حرام‘‘ کے حوالے سے درجِ ذیل سوالات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے:

i۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی  ہی پیدا کی ہوئی بعض چیزوں کو حلال اور بعض کو حرام   کیوں ٹھہرایا ہے؟

ii۔ جو چیز یں آخرت میں  حلال ہیں، اُنھیں  یہاں  کیوں حرام ٹھہرایا گیا ہے؟

iii۔ کیا شریعت نے حلال و حرام کی کوئی فہرست مرتب  کی ہے؟

iv۔ اگر نہیں تو  پھر بے شمار معاملات میں حلت و حرمت کو کیسے متعین کیا جائے؟

v۔ حلال و  حرام  کا فیصلہ کرنے میں عام افراد کا دائرہ کس حد تک محدود اور علما کا کس حد تک وسیع ہے؟  

vi۔ قرآنِ مجید میں دو ایسےمقامات ہیں، جہاں حرمتوں کے بیان کے ساتھ’اِنَّمَا‘ آیا ہے، جس کے معنی ’صرف ‘ کے ہیں۔  سورۂ  بقرہ  میں کھانے سے متعلق صرف چار چیزوں ــــ مردار، خون، سؤر کا گوشت اور غیراللہ کے نام کا ذبیحہ  ــــ کوحرام ٹھیرایا ہے۔ سورۂ  اعراف   میں اخلاقی دائرے کے صرف  پانچ اعمال   ــــ فواحش، حق تلفی،  ناحق زیادتی، شرک اور افترا علی اللہ ــــ کو حرام کیا ہے۔اگر فقط یہی 9 چیزیں حرام ہیں تو قرآن و حدیث کی باقی حرمتوں کی کیا حقیقت ہے؟ اگر وہ بھی حرام ہیں تو یہاں ’صرف ‘  کی حد بندی کیوں کی گئی ہے؟

vii۔اللہ نے طیبات (پاکیزہ چیزوں)  کو حلال اور خبائث (ناپاک چیزوں) کو حرام ٹھہرایا ہے۔اِسی طرح منکرات(برائیوں) سے روکا اور معروفات(بھلائیوں) کا حکم دیا ہے۔ یہ چاروں  الفاظ اصولی نوعیت کے ہیں۔ اِن کے مدعا اور مصداق کا تعین کیسے ہو گا؟

3۔ حلال و حرام  کی غرض و غایت، اِن کی تشریح و تعبیر اور  تعیین و ترتیب کے حوالے سے یہ بنیادی سوالات  ہیں ۔ حلال و حرام کی بحث میں اِن کے جواب متعین کرنا ضروری ہے۔

4۔  ہماری علمی تاریخ میں مذکورہ سوالوں  سے اول تو تعرض ہی نہیں کیا گیا اور اگر کہیں جزوی طور پر کیا بھی ہے تو اُس میں اشکالات کو اجمالی انداز سے زیرِ بحث لا کر فتویٰ جاری کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔  

5۔ استاذِ گرامی  جناب جاوید احمد غامدی نے شریعت  کے جملہ مباحث  پر غور و خوض کے بعد حلال و حرام   کی غرض و غایت کو  پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیاہے  اور اِس ضمن میں  ہر اُس مسئلے کی تحقیق کی ہے، جس  پرقدیم علم خاموش ہے یا غیر تسلی بخش حل پیش کرتا ہے  اور ہر اُس سوال کا جواب دیا ہے، جو جدید علم نے دورِ حاضر میں اٹھایا ہے۔

-

باب 1:حلال و حرام ــــــ بنیادی مقدمات

مقدمہ1:احکام شریعت کی غرض و غایت

1۔ انسان کا نصب العین جنت الفردوس ہے۔

2۔اللہ کا دین اِسی جنت کی طرف انسان کی رہنمائی کے لیے نازل ہوا ہے۔

3۔جنت الفردوس کے اِس نصب العین کو پانے کے لیے دین  کا مقرر کردہ  طریقہ تزکیۂ نفس ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ   انسان اپنے ظاہر و باطن کو اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو  ہر لحاظ سے پاکیزہ بنائے۔

4۔چنانچہ دین کا مقصد تزکیۂ نفس  ہے، یعنی لوگوں کو پاکیزگی اختیار کرنے کے طریقوں سے آگاہ کیا جائے۔

5۔ نفس کی پاکیزگی  کے اِس مقصدکو حاصل کرنے کے لیے دین نے چار طرح کے احکام دیے ہیں۔ تزکیۂ نفس کا پورا عمل اِنھی چار صورتوں میں منحصر ہے:

i۔ اللہ کی عبادت کے احکام

ii۔ بدن کی پاکیزگی کے احکام

iii۔ اخلاقیات کی پاکیزگی کے احکام

iv۔ کھانے پینے کی پاکیزگی کے احکام

6۔ عبادات  کچھ مقرر اعمال و اذکار  پر مشتمل ہیں،  جنھیں طے شدہ طریقے کے مطابق  اور  معین الفاظ  کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ بدن کی پاکیزگی کے احکام کا ہے۔ وہاں بھی کچھ رسوم و آداب ہیں، جن کا اہتمام کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔  چنانچہ اِن دونوں چیزوں کا تحلیل و تحریم  کے دائرے سے  کوئی تعلق نہیں ہے۔

7۔ حلال و حرام کی ساری بحث   اخلاقیات اور خور و نوش سے متعلق ہے۔

-

مقدمہ2: شریعت میں حلال و حرام کے احکام

1۔ شریعت کے تمام احکام تزکیۂ نفس کے لیے دیے گئے ہیں۔

2۔ اِن احکام میں جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ،  وہ  اخلاقیات اور خور و نوش کے دائروں سے متعلق ہیں۔  

3۔یہ  وہ آلایشیں ہیں،جو انسانوں کے اعمال و خصائل اور اکل و شرب کو آلودہ کرنے والی ہیں۔اِن سے روکنے کا مقصد نفوس کو اِن کی آلودگی سے محفوظ کر کے اُس جنت  کا اہل  بنانا ہے، جو پاک بازوں کے لیے خاص ہے۔

4۔ اِنھی  ممنوعات کے لیے ’حرام‘   کی اصطلاح مستعمل ہے۔

5۔ شریعت نے مجموعی طور پر نو (9)  چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے۔  اِن میں سےپانچ (5) کا تعلق اخلاقیات  سے اور چار (4)  کاخورونوش سے ہے۔

6۔ اِن حرمتوں کا تعین کرتے ہوئے  ’اِنَّمَا‘ کا  کلمۂ حصر  استعمال کیا  گیاہے، جس کے معنی ’صرف‘، ’محض‘  اور ’فقط‘ کے ہیں۔   مطلب یہ ہے کہ   شریعت نے فقط  اِنھی چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے، اِن کے علاوہ کسی اور چیز کو حرام قرار نہیں دیا۔

7۔   اِس  حصر کا لازمی تقاضا یہ ہے  کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ   اِن حرمتوں میں نہ کوئی کمی ہو سکتی ہے اور نہ کوئی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

-

مقدمہ3:زینتوں کی حلت

1۔’زینت ‘  کا لفظ عربی زبان میں اُن چیزوں کے لیے آتا ہے، جن سے انسان اپنی حس جمالیات کی تسکین کی غرض سے کسی چیز کو سجاتا بناتا ہے۔

2۔چنانچہ لباس، زیورات وغیرہ بدن کی زینت ہیں؛ پردے، صوفے، قالین، غالیچے، تماثیل، تصویریں اور دوسرا فرنیچر گھروں کی زینت ہے؛ باغات، عمارتیں اور اِس نوعیت کی دوسری چیزیں شہروں کی زینت ہیں؛ غنا اور موسیقی آواز کی زینت ہے؛ شاعری کلام کی زینت ہے۔

3۔ سورۂ اعراف (7)  آیات 31 تا 32  سے زینت کی حلت کا حکم پوری طرح واضح ہوتا ہے۔ اُس کا خلاصہ یہ ہے:

i۔   ’زِیۡنَۃَ اللّٰہِ‘ (اللہ کی زینت) کے الفاظ  سے واضح ہے کہ اللہ نے زینت کو اپنی نسبت سے بیان کیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ زینت اللہ کی نعمت ہے۔

ii۔ اللہ نے دنیا میں  یہ زینتیں اصلاًاپنے مومن بندوں کے لیے پیدا کی ہیں۔  

iii۔  آخرت میں  یہ صرف اہل ایمان کے لیے مختص ہوں گی۔ چنانچہ جنت سراپا زینت ہے۔

4۔ مراد یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے رہبانیت اور     ترکِ دنیا    کی ترغیب نہیں دی۔ اُس نے  انواع و اقسام کی نعمتیں پیداکی ہیں، اُنھیں طرح طرح سے مزین کیا ہے اور اپنے بندوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ اُنھیں برتیں، اُن کی   فیض رسانی سے مستفید ہوں اور اُن کی تزئین و آرایش سے نشاط حاصل کریں۔

-

مقدمہ4:حلال کو حرام قرار دینے کی بدعت

1۔ سورۂ اعراف (7)  کی آیت 32میں  ’قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ‘ (اِن سے پوچھو، کس نے حرام کر دیا؟)  کےاسلوب   سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حلال کو حرام یا حرام کو حلال قرار دینے کا اختیا کسی کو نہیں دیا۔

2۔ سورۂ نحل (16) کی آیت 116 سے واضح ہے کہ ایسا کرنا اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہیں۔

3۔ ایسا کرنے والے بدعت اور سرکشی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اُن کا ٹھکانا جہنم ہے۔

باب 2:اخلاقیات میں حلال و حرام

1۔ اخلاق وہ  اعمال، وہ خصائل اور  وہ  رویے ہیں، جو انسان  اپنی روز مرہ زندگی میں اختیار کرتا ہے۔ دین جہاں یہ چاہتا ہے کہ  انسان اپنے بدن کو صاف ستھرا رکھے، کھانے پینے کی چیزوں میں کوئی نجاست داخل نہ ہونے دے، وہاں  یہ بھی چاہتا ہے کہ اُس کے اخلاق ہر لحاظ سے پاکیزہ رہیں۔

2۔ تطہیر اخلاق کا یہ مطالبہ ایمان کے بعد سب سے  زیادہ اہمیت کا حامل  ہے، کیونکہ یہی چیز عمل صالح سے عبارت ہے، جو  جنت میں داخلے کی لازمی شرط ہے۔

3۔اخلاق کے فضائل  اور رذائل متعد د ہو سکتے ہیں اور مختلف حالات  میں اِن کی صورتیں بھی مختلف ہو سکتی ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے اِن کے اصولوں کو خود متعین فرما دیا ہے۔ 

4۔اخلاقیات کے حلال و حرام میں قرآن کی ہدایت اِنھی بنیادی اصولوں پر مبنی ہے اور اُس کے تمام اخلاقی احکام اِنھی  کی تعلیق و تفصیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

5۔ یہ کل چھ اصول یا چھ انواع ہیں، جو سورۂ نحل (16) کی آیت 90میں مذکور ہیں۔   اِن میں تین  چیزوں کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور تین سے منع فرمایا ہے۔

اِن تین چیزوں کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے: 1۔ ’عَدل‘،  2۔ ’اِحْسَان‘، 3۔  ’اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی‘ ۔

اِن تین چیزوں سے منع فرمایا ہے: 1۔’فَحْشَآء‘  ،2۔’مُنْکَر‘ ، 3۔ ’بَغْی‘۔

6۔ سورۂ اعراف(7)  کی آیت 33 میں بھی اِنھی تین چیزوں   کی ممانعت کا حکم آیاہے۔ تاہم  وہاں ’مُنْکَر‘ (برائی) کی جگہ ’اِثۡمَ ‘ (برائی) کا لفظ آیا ہے۔ اِس کا مقصد ’’حق تلفی‘‘ کے مفہوم  کو خاص کرنا ہے۔ مزید یہ کہ وہاں  متذکرہ تین ممنوعات کے علاوہ مزید دو  چیزیں ـــ  شرک اور بدعت ــــ  بھی مذکور ہیں۔ یہ کوئی اضافی انواع نہیں ہیں، بلکہ’اِثۡمَ ‘ (برائی) اور ’بَغْی‘ (ناحق زیادتی) ہی کی  تعلیقات ہیں، جن  کا ذکر  اِن کی غیر معمولی شناعت کو نمایاں  کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔  

7۔ چنانچہ اخلاقی دائرے میں  تین انواع  اور اُن کے دو متعلقات کو شامل کر کےیہ  کل پانچ چیزیں ہیں، جنھیں شریعت نے حرام ٹھہرایا ہے۔ ’اِنَمَّا‘ (صرف)  کا کلمۂ حصر اِس امر پر دلیل قاطع کی حیثیت رکھتا ہے کہ  اِن میں نہ کسی چیز کا اضافہ ہو سکتا ہے اور نہ کمی  کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا قرآن و حدیث میں مذکور تمام  اخلاقی حرمتوں  کو اِنھی پانچ حرمتوں  کے تحت سمجھا جائے گا۔

8۔ اِن پانچ حرمتوں کی وضاحت درجِ ذیل ہے۔

i۔ فواحش (الْفَوَاحِش)

*’فواحش‘ ’فاحشۃ‘ کی جمع ہے، جس کے معنی  کھلی بے حیائی کے ہیں۔ اِن سے مراد   زنا، اغلام، وطی بہائم اور اِن جیسےجنسی بے راہ روی کے  کام ہیں۔ جنسی معاملات کا افشا  اورجنسی اعضا کی نمایش بھی اِن میں شامل ہے۔ یہ سب وہ کام  ہیں، جنھیں انسانی فطرت برائی سمجھتی ہے اور انسانوں کا  اجتماعی ضمیر جن کی شناعت پر متفق ہے۔اِن کا ارتکاب در پردہ کیا جائے یا کھلم کھلا، ہر حال میں ممنوع ہے۔

*فواحش کی قرآن و حدیث   میں مذکور  بعض  صورتیں درجِ ذیل ہیں:

زنا،

اغلام،

عریانی،

فحش گوئی،

زنا کی ترغیب ،

زنا کا چرچا ،

بعض رشتوں میں نکاح ،

زانی اور پاک دامن   مرد و عورت میں نکاح ۔

ii۔ حق تلفی (الْاِثْم)

*  ’’حق تلفی‘‘    سے مراد وہ عمل ہے، جس کے نتیجے میں  حق دار  حق سے محروم ہو جائے یا   مستحق  کا استحقاق مجروح  ہو جائے۔  سورۂ اعراف (7)کی   آیت (33) میں  ’الْاِثْم‘   سے یہی مفہوم مراد ہے۔اِس کے تحت وہ تمام اعمال آتے ہیں،  جو مخلوق کا حق مارنے اور خالق کے حقوق سے روگردانی پر مبنی ہیں۔چنانچہ  شرک اور اُس کے مختلف اعمال اللہ کی حق تلفی کا مظہر ہیں اور لوگوں کی جان، مال اور آبرو کے حقوق کی خلاف ورزی مخلوق کی حق تلفی ہے۔

*حق تلفی کی قرآن و حدیث  میں مذکور  بعض صورتیں درج ذیل ہیں:

قطع رحمی،

ناپ تول میں کمی،

گواہی کو چھپانا،

حسب و نسب میں تبدیلی،

مذاق اڑانا، عیب لگانا،   برا لقب دینا،

زوجین  کا ازدواجی تعلق سے  انکار۔

-

iii۔ زیادتی و سرکشی (الْبَغْی)

*’بغی یبغی‘ کے لغوی معنی  کسی چیز کی طلب میں حدِ اعتدال  سے تجاوز کرنے کے ہیں۔  یہ تجاوز جب دوسروں کے حقوق میں مداخلت اور اُن کی  بجا آوری سے انحراف کی سطح تک جا پہنچے تو ظلم و زیادتی، سرکشی و بغاوت اور ضد اور ہٹ دھرمی  کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔  

*قرآنِ مجید میں ’بَغْی‘  کا  لفظ اِن تینوں پہلوؤں سے  استعمال  ہوا ہے۔ اِس کی نمایاں ترین صورتیں شرک اور بدعت ہیں۔ اِن کی غیر معمولی شناعت کے باعث اللہ تعالیٰ نے اِنھیں چوتھی اور پانچویں حرمت کے طور پر  الگ سے متعین فرمایا ہے۔ اِن  کے علاوہ   قرآن و حدیث میں مذکور باقی نمایاں حرمتیں   درجِ ذیل ہیں:

مذہبی جبر،

فساد فی الارض،

قتل و جراحت،

خود کشی،

قذف،

دوسروں کا مال غصب کرنا

چوری،

سود،

جوا،

قحبہ گری،

غرور و تکبر،

خلقی ساخت میں تبدیلی،

ظلم و زیادتی میں تعاون۔

iv۔ شرک (اَنۡ تُشۡرِکُوۡا بِاللّٰہِ)

*اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات یا اُس کی  تدبیرِ امور میں کسی کو  حصہ دار سمجھنا شرک ہے۔ یہ ’اِثْم‘ (حق تلفی)  اور ’بَغۡی‘ (ناحق زیادتی) کا مجموعہ ہے۔ ’اِثْم‘ (حق تلفی)  اِس لیے  کہ یہ اللہ ہی کا حق ہے کہ اُسے الٰہ، معبودِ حقیقی  اور قادرِ مطلق مانا جائے ۔  ’بَغۡی‘ (زیادتی و سرکشی) اِس بنا پر کہ یہ افترا علی اللہ، یعنی اللہ پر جھوٹ باندھنا  ہے۔ اِسے ایک الگ حرمت کے طور پر بیان کرنے کا باعث اِس کی نہایت  درجہ شناعت ہے۔

*شرک کی قرآن و حدیث میں مذکور بعض صورتیں درج ذیل ہیں:

بت پرستی،

مشرکانہ تصاویر و تماثیل،

قبروں کی تقدیس،

مزعومہ نافع اور ضار ہستیوں سے مدد اور سفارش  طلبی،

 توہم پرستی،

غیر اللہ کی قسم ۔

v۔ بدعت (اَنۡ تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ)

*اللہ اور اُس کے رسول کی سند کے بغیر کسی بات کو دین کی حیثیت سے پیش کرنا بدعت ہے۔ قرآنِ مجید میں اِس کے لیےعموماً   ’افترٰی علی اللّٰہ الکذب‘   کا اسلوب اختیار ہوا ہے۔ اِس سے مراد اللہ کے نام پر جھوٹ گھڑتے  ہوئے حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینا  اور ایسی شریعت تصنیف کرنا ہے، جس کا اللہ اور اُس کے دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اپنی حقیقت کے لحاظ سے یہ بغی یعنی ناحق زیادتی ہے، جسے اِس کی غیر معمولی شناعت کی بنا پر منفرد حرمت کے طور پر بیان کیا ہے۔

*بدعت کی قرآن و حدیث میں مذکور بعض صورتیں درج ذیل ہیں:

بیت اللہ کا برہنہ طواف،

تزئین و آرایش کی حرمت،

’بحیرۃ‘، ’سائبۃ‘، ’وصیلۃ‘ اور’حام‘کی تقدیس ،

کھیتی اور جانوروں کی بعض  حرمتیں،

مسلمان کی تکفیر ۔

 

باب 3: خور و نوش میں حلال و حرام

1۔ کھانے پینے کی چیزوں میں دین  نے    پاک اور نجس چیزوں کی کوئی فہرست قائم نہیں کی، بلکہ یہ اصولی ہدایت دی ہے کہ طیبات (پاکیزہ چیزوں) کو کھانا جائز ہے اور خبائث (غیرپاکیزہ  چیزوں) کو کھانا ممنوع ہے۔

2۔ طیبات سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں، جو اپنے مزاج اور اپنی سرشت کے لحاظ سے انسانیت کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں اور انسان کا ذوقِ سلیم جن کو کھانے کے لیے موزوں سمجھتا ہے۔

3۔ خبائث سے مراد، اِس کے برعکس وہ تمام چیزیں ہیں، جو اپنے مزاج اور اپنی سرشت کے لحاظ سے انسانیت کے ساتھ مناسبت نہیں  رکھتیں اور انسان کا ذوقِ سلیم جن کو کھانے کے لیے نا موزوں سمجھتا ہے۔

4۔ طیبات اور خبائث کے الفاظ  تعمیم پر دلالت کرتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت نے اِن کی تعیین و تخصیص نہیں کی، بلکہ لوگوں کو اجازت دی ہے کہ وہ  عقل و فطرت کی رہنمائی سے طیبات  و خبائث کو از خود متعین کر لیں۔

5۔ انسانی تاریخ بالعموم اور اقوام انبیا کی تاریخ بالخصوص، اِس امر کی شہادت دیتی ہے  کہ انسان  کی فطرت نے ہمیشہ اُس کی درست رہنمائی کی ہے۔ چنانچہ:

i۔ اُس نے چیر پھاڑ کرنے والے خوں خوار جانوروں کوکھانا کبھی پسند نہیں کیا۔

ii۔ اِسی طرح وہ جانور جو فقط سواری اور بار برداری کا کام دیتے ہیں، اُنھیں بھی وہ نہیں کھاتا۔

iii۔ وہ جانور جو گندگی پر پلتے ہیں، اُنھیں کھانے سے بھی اُس کی فطرت گریز کرتی ہے۔

iv۔  اِن جانوروں کے بول و براز  کو وہ غلاظت سمجھتا ہے اور دستر خوان کو اُن سے دور رکھتا ہے۔

v۔ جانوروں کے علاوہ دیگر اشیا بھی اگر طبیعت میں فساد پیدا کرنے والی یا عقل و فطرت کو ماؤف کرنے والی ہوں تو اُنھیں بھی وہ طیبات میں شمار نہیں کرتا ۔

6۔ اِن نکات سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے  خور ونوش کے حلال و حرام کا حکم اطلاقاً نہیں، بلکہ اصولاً اور تفصیلاً نہیں، بلکہ اجمالاً دیا ہے۔ اطلاق اور تفصیل کے لیے اُس نے انسانی فطرت کی رہنمائی  کو کافی سمجھا ہے۔

7۔ اِس اصول پر  بادی النظر میں چند اشکالات پیدا ہوتے ہیں۔ اِن کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن نے ایک جانب خبائث کی حرمت کا اصولی حکم دیا ہے اور دوسری جانب کچھ حرمتوں کو بیان کر دیا ہے۔ پھر جن کو بیان کیا ہے، اُن میں سے چار  ــــــ مردار، خون، سؤر کا گوشت، غیراللہ کے نام کا ذبیحہ ــــــ کے ساتھ ’اِنَّمَا‘ (صرف ) کا لفظ لگا دیا ہے، جو  حرمت کو اِنھی چار میں محصور کرنے پردلالت کرتا ہے۔ اِس پر مستزاد حدیث میں مذکور کچھ مزید حرمتوں کا بیان ہے۔  اب اِس مسئلے کو کیسے سمجھا جائے کہ اشکالات بھی رفع ہو جائیں اور تضاد و تناقض کی کوئی صورت بھی پیدا نہ ہو۔

8۔ اِن اشکالات کے بارے میں استاذِ گرامی کا موقف درجِ ذیل نکات پر مبنی ہے:

i۔ اِن چاروں حرمتوں  کا تعلق پالتو چوپایوں سے ہے۔ اِن کے خبث  و طیب کو وہ جانتا ہے۔

ii۔جانوروں کے خبث و طیب کی اِس عمومی آگاہی کے باوجود، اِن سے متعلق چار چیزیں  ــــــ مردار، خون، سؤر کا گوشت، غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ ــــــ ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں انسان متردد ہو سکتا ہے کہ اُنھیں کس زمرے میں شامل کرے۔ طیبات سمجھ کر کھا لے یا خبیث سمجھ کر چھوڑ دے۔ یہی وہ چار مشتبہ  چیزیں ہیں، جن کے بارے میں اللہ نے حرمت کا فیصلہ صادر فرمایا   ہے۔

iii۔ اِن چاروں میں سے ہر چیز میں اشتباہ کی نوعیت کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے: مردار کے بارے میں اشتباہ کی نوعیت یہ ہے کہ   وہ ہوتا  تو حلال جانور ہے ،مگر اُس کی جان تذکیہ کر کے تلف نہیں کی جاتی۔  خون کے بارے میں اشتباہ یہ ہے  کہ اُسے گوشت کا جز سمجھ کر کھا لیا جائے یا   بول و براز جیسی نجاست قرار دے کر نہ کھایا جائے؟سؤر کے گوشت کے بارے میں  اشتباہ کی نوعیت یہ ہے کہ وہ  ایک پہلو سے بہائم، یعنی گاے ، بھینس، بھیڑ، بکری وغیرہ جیسے حلال جانوروں میں  شمار ہوتا  اور اُنھی کی طرح  چارا کھاتا ہے،مگر دوسرے پہلو سے وہ درندوں میں بھی شامل ہوتا ہے۔ یعنی وہ اُن کی طرح  کچلی بھی رکھتا ہے اور گوشت خور بھی ہے۔ تو اُسے بہائم میں شمار کیا جائے یا درندوں میں؟  غیر اللہ کے لیے کیے گئے ذبیحہ میں اشتباہ کی نوعیت یہ ہے   کہ وہ جانور بھی طیب ہے اور  ذبح کر کے اُس کا تذکیہ بھی کر لیا گیا ہے، مگر اُس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا یا کسی غیر اللہ کا نام لے لیا ہے۔ کیا اُسے حرام سمجھا جائے گا یا حلال؟ اِن چار مشتبہ چیزوں کے بارے میں اللہ نے حرمت کا فیصلہ صادر فرمایا ہے۔

iv۔ اِس تفصیل سے واضح ہے کہ اِس باب میں شریعت کا موضوع صرف وہ جانور اور اُن کے متعلقات ہیں، جن کے طیب یا خبیث ہونے کا فیصلہ تنہا عقل و فطرت کی رہنمائی میں کر لینا انسانوں کے لیے ممکن نہ تھا۔

v۔ قرآنِ مجید سے واضح ہے کہ جانوروں سے متعلق حلت و حرمت کے حوالے  سے شریعت نے فقط اِنھی چار چیزوں کو موضوع بنایا ہے۔  باقیوں  کے معاملے میں انسان کو بتا دیا ہے کہ وہ اپنی فطرت کی روشنی میں طیب و خبیث کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

9۔ خور ونوش کی جن چیزوں کو  شریعت نے حرام قرار دیا ہے، اُن کی ممانعت کا تعلق اُن کے کھانے پینے سے ہے، اُن کے دیگر استعمالات کی ممانعت  مطلوب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے  مردار جانور کی حرمت کے حکم کا اطلاق  اُس کی کھال پر نہیں کیا اور اُسے چمڑے کے طور پر استعمال کرنے کو مباح قرار دیا۔

10۔ قرآن و حدیث   میں مذکور خبائث کے بعض  اطلاقات درجِ ذیل ہیں:

i۔گلا گھٹنے، گرنے اور زخم  لگنے  سے مرنے والے جانور،

ii۔آستانے پر اور فال کے ذریعے سےذبح کیے گئے جانور،  

iii۔اللہ کے اسم کے بغیر ذبح کیے گئے جانور،

iv۔شراب نوشی ،

v۔ کچلی والے درندے اور چنگال والے پرندے ،

vi۔ غلاظت کھانے والے جانور۔

باب 4: حلال و حرام ــــــــ اطلاقی مباحث

1۔ مذکورہ تفصیل سے واضح ہے کہ حرمتوں کے باب میں شریعت نے اصلاً اصولی ہدایت  پر اکتفا کیا ہے۔  چند  بنیادی  انواع  کو متعین کر کے انسانوں کو ہدایت فرمائی ہے   کہ وہ عقل و فطرت کی روشنی میں جملہ معاملات اور  استعمالات پر  اِن کا  ازخود اطلاق  کر لیں۔

2۔ اِس ضمن میں کل چھ انواع  مقرر فرمائی ہیں: خبائث،  فواحش، حق تلفی، ناحق زیادتی، شرک اور بدعت۔ اِن میں سے پہلی کا تعلق خورونوش سے اور باقی پانچ کا اخلاقیات سے ہے۔

3۔ قرآن و حدیث میں مذکور مختلف ممانعتیں اِنھی چھ انواع کی اطلاقی صورتیں ہیں۔ اصطلاح میں اِنھیں ’’فقہ القرآن‘‘اور ’’فقہ النبی‘‘سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

4۔ حالات کی تبدیلی اور تہذیب و تمدن کے ارتقا سے  اطلاقات کی جو  نئی صورتیں وجودپذیر ہوئی  ہیں،  اُن  کے بارے میں شریعت کا منشا جاننے کے لیے  اجتہاد کا طریقہ رائج ہے۔  اِس میں قیاس اور استنباط کے طریقے پر فقہی آرا قائم کی جاتی ہیں۔

5۔ اِن آرا کو قائم کرنے کے لیے جو اصول و قواعد نصوص میں مذکور ہیں یا  اُن پر غور کرنے سے اخذ ہوتے ہیں، اُن میں سے نمایاں درجِ ذیل ہیں:

تکلیفِ مالا یطاق،

رفع حرج،

علت  ،

عرف و عادت ،

استحالہ،

سدِ ذریعہ۔

-

تکلیفِ مالا یطاق

1۔یہ قرآنِ مجید کی اصطلاح ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ   آخرت کی جواب  دہی کے معاملے میں انسان اُسی قدرمکلف ہے، جس قدر  اُسے  طاقت میسرہے۔ چنانچہ:

 اولاً، اُس پر ایسی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی، جسے اٹھانے سے وہ قاصر ہو،

ثانیاً،  اکراہ و اضطرار اور  جبر و استبداد میں  اُسے  احکام پرعمل کی  رخصت عطا فرمائی ہے۔

2۔ اضطرار سے ایسی حالت  مراد ہے،  جب   انسان صورتِ حال سےمجبور ہو کر ممنوعات سے مجتنب رہنے پرقادر نہ رہے۔ یہ صورت  اصلاً خور  و نوش کے ساتھ  خاص ہے۔شریعت نے اِس  کا استثنا قائم کیا ہے اور نقصان یا ہلاکت سے بچنے کے لیے محرمات کو استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔  

3۔ ’اضطرار‘ ہی کا ایک پہلو ’اکراہ‘  ہے۔ اِس سے مراد ایسی حالت ہے،جب   انسان لوگوں  کے ہاتھوں مجبور ہو کر ممنوعات سے مجتنب رہنے پرقادر نہ رہے۔  یعنی  کوئی فرد، خاندان، قبیلہ، قوم یا  ریاست   اُسےجبر اً   ناحق  کو اختیار کرنے پر اصرار کریں  اور اُس کے انکار پر اُس کے لیےجان و مال اور عزت و آبرو  سے محروم ہونےکا خطرہ پیدا ہو جائے۔ایسی صورتِ حال میں اللہ نے رخصت دی ہے کہ  مجبور شخص ظاہری طور پر  نا حق کا اظہار کر کے اپنی جان کو محفوظ کر لے۔  اِس صورت میں   اُس پر سے مواخذہ اور عقوبت کو اٹھا لیا جائے گا۔    

4۔ رخصت  سے مراد  یہ ہے کہ  مکلف کو کسی عذر کی وجہ سے حرام کے استعمال کی اجازت دے دی جائے۔ رخصت کے نتیجے میں کوئی حرام شے حلال نہیں ہو جاتی، فقط  اُس کی عقوبت اٹھا لی جاتی ہے۔ چنانچہ حکم کا تقاضا ہے کہ اِس سے  بہ قدر ِضرورت  استفادہ کیا جائے اور بہ کراہت استعمال کیا جائے تاکہ حرمت کا احساس پوری طرح قائم رہے۔

5۔’عزیمت‘ کا لفظ  ’رخصت‘ کے استثنائی حکم کے  مقابلے میں آتا ہے اور   عموم پر دلالت کرتا ہے۔  اِس اعتبار سے  یہ شریعت کے جملہ   احکام تکلیفیہ کو متضمن ہے ، یعنی وہ اوامر و نواہی  جن کا انسان  مکلف  ٹھہرایا گیا  ہے اور جن کی بجا  آوری اُس کے ایمان و اسلام کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اِنھی احکام کو ہمارے فقہا   فرض ، واجب، مستحب اور حرام  اور مکروہ  کے مختلف زمروں   میں تقسیم کرتے ہیں۔

6۔ شریعت کا اصل مطلوب عزیمت ہی ہے ، یعنی اوامر و نواہی پر  کامل اطاعت اور پورے عزم و جزم کے ساتھ عمل کیا جائے۔کسی موقع پر  اگر کوئی اضطرار یا اکراہ لاحق ہو جائے  تو  رخصت کو  با دلِ  ناخواستہ  اور بہ صد افسوس قبول کیا جائے۔ جیسے ہی اضطرار ختم ہو  تو اللہ کا شکر بجا لاتے ہوئے  اُس سے  کنارہ کشی اختیار کی جائے۔

-

رفع حرج

1۔شریعت   میں رفع حرج کو اصول کی حیثیت حاصل ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُس کے  اوامر و نواہی    میں  سختی کے بجاے نرمی  کا   طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔    چنانچہ  مکلفین    نہ  صرف  تکلیفِ ما لا یطاق سے بری ہیں،   بلکہ معمول سے زائد مشقتوں میں بھی  آسانی  کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں ۔ عبادات میں جو رعایتیں شریعت نے  عطا فرمائی ہیں، وہ تنگی میں آسانی کے اِسی اصول پر مبنی  ہیں۔  

2۔رفع حرج کے اِس اصول  کے اطلاق کے حوالے سے جن چیزوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، اُن میں سے نمایاں درجِ ذیل ہیں:

i۔ رخصتیں شریعت کے اصل احکام کی متبادل یا قائم مقام صورتیں ہر گز نہیں ہیں۔ یہ اُس موقع کی رعایتیں ہیں ،جب انسان کے لیے مطلوب حکم پر عمل کرنا ممکن نہ رہے یا مشکل ہو جائے۔ اِنھیں استثنا کے طور پر قبول کرنا چاہیےاور جیسے ہی حالات معمول پر آئیں پورے جذبۂ ایمانی کے ساتھ اصل  احکام کی طرف لوٹ جانا چاہیے۔

ii۔ یہ رعاعیتیں اللہ کی رحمت و شفقت کا اظہار ہیں۔اِن کو اللہ کی عنایت کے طور پر پورے احساسِ عجز کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ اِس معاملے میں عزیمت پر اصرار بلا جواز ہے۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن رخصتوں اور رعایتوں کو اللہ کی عنایت قرار دیا ہے اور اپنے عمل سے واضح کیا ہے کہ اِن سے مستفید ہونا ہی  مطلوب رویہ ہے۔

iii۔ شریعت میں رفع حرج کو مستقل اصول کی حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ تنگی کے کسی معاملے میں اگر رخصت  کا کوئی حکم شریعت میں مذکور نہیں ہے یا حکم تو موجود ہے، مگر اُس کی جزئیات و تفصیلات کا تعین نہیں کیا گیا یا حالات کی تبدیلی سے اطلاق کی بعض نئی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں تو شریعت  کے اِس اصول  کو بنیاد بنا  کر آسانی کی راہ تلاش کرنا  دین کے منشا کے مطابق ہو گا۔

-

علت  

1۔ علت  سے مراد وہ حقیقت ہے، جس پر شریعت کا کوئی حکم استوار ہوتا ہے۔ یعنی  جس متعین وجہ سے یا جس خا ص ضرورت کے تحت شارع نے کوئی حکم دیا ہے  یا کوئی پابندی  لگائی ہے یا کوئی رخصت عطافرمائی ہے، وہ وجہ یا ضرورت اُس حکم کی علت قرار پائے گی۔

2۔  شریعت  کےکسی حکم میں علت کی تعیین عموماً دو طریقوں سے کی جاتی ہے:

ایک ، لفظوں   کے ذریعے سے،

دوسرے، استقرا کے ذریعے سے ۔

3۔ لفظوں کے ذریعے سے علت کے تعین کا مطلب یہ ہے کہ حکم کی علت حکم کے ساتھ ہی لفظاً مذکور  ہوتی ہے ۔  اِس مقصد کے لیے کسی جگہ حروف تعلیل کے ساتھ علت کو  بیان کر دیا جاتا ہے اور کسی جگہ یہ جملے کے دروبست میں واضح کر دی جاتی ہے۔ اِس طریقے پر  علت کی تعیین کی ایک مثال محرماتِ نکاح ہیں ۔  سورۂ  نساء (4) کی آیات   22 تا 24 میں    بعض عورتوں سے نکاح کو ممنوع ٹھہرایا ہے تو ممانعت کی علت  ’اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً‘ (بے شک، یہ کھلی ہوئی بے حیائی ہے) کے الفاظ میں واضح  فرما دی ہے۔ 

4۔  استقرا کے ذریعے سے علت کے تعین کا مطلب یہ ہے کہ جب علت لفظاً مذکور نہ ہو  تو اُسے کلام کے سیاق و سباق، جملوں کے درو بست، بیان کے متعلقات  و محذوفات  اور  حکم کی تفصیلات سے اخذ کیا  جاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اِس طریقے کو  عدت کے حکم  سے سمجھا جا سکتا ہے۔  قرآنِ مجید کی رو سے بعض صورتوں میں عدت کی مدت تین حیض ہے، بعض میں تین ماہ ہے، بعض میں چار ماہ دس دن ہے، بعض میں وضع حمل ہے اور بعض میں کوئی مدت نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مختلف صورتوں میں  یہ تنوع مدت پر کیوں اثر انداز ہوتا ہے اور اُسے متغیر کر دیتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ اِس کا سبب امکانِ حمل کو معلوم کرنا ہے۔ اِس طرح یہ بات پوری طرح مبرہن ہو جاتی ہے کہ عدت کی علت استبراے رحم یا وضع حمل ہے۔

5۔متعدد احادیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  قرآنِ  مجید میں مذکور احکام کی علتوں کو بنیاد بنا کر  بعض دیگر صورتوں پر بھی احکام کا اطلاق فرمایا ہے۔ اِس کی ایک مثال یہ  ہے کہ قرآنِ مجید نے جن خواتین سے نکاح کو حرام ٹھہرایا ہے، اُن میں رضاعی مائیں اور رضاعی بہنیں بھی شامل ہیں۔ سورۂ نساء کی آیت 23 سے واضح  ہےکہ اِس حکم کی علت رضاعت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  رضاعت کی اِسی علت کو بنیاد بنایا ہے اور رضاعی ماں کے تعلق سے قائم ہونے والے دیگر رشتوں کو بھی حرام ٹھہرا دیا ہے اور اِس امر کو بہ طورِ اصول ارشاد فرمایا ہے  کہ ہر وہ رشتہ جو ولادت کے تعلق سے حرام ہے، رضاعت سے بھی حرام ہو جاتا ہے۔

--

عرف و عادت

 1۔ احکام شریعت   کی تعیین کے لیے  عرف و عادت  کا اعتبار ضروری ہے۔   اِس کا مطلب یہ ہے کہ  شارع کے الفاظ کو اُن کے  معروف اور مستعمل مفہوم میں سمجھا جائے گا اور اِسی بنا پر اُن کے مصداقات اور اطلاقات کو متعین کیا جائے گا۔

2۔ شریعت نے ’مَیْتَۃ‘ یعنی مردار کا کھانا حرام  قرار دیا  ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مردار  کا اطلاق کیا  ہر مردہ چیز پر ہو گا اور مثال کے طور پر ذبح کر کے مارا گیا جانور بھی   مردار کہلائے گا یا  مچھلی  وغیرہ پر بھی اِس کا اطلاق ہو گا؟ اِس کا جواب نفی میں ہے۔  اِس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی زبان کے عرفِ استعمال میں   ’مَیْتَۃ‘ سے وہ جانور مراد ہیں،جو طبعی موت مرے ہوں۔ ذبح کیے گئے جانور اور پانی سے شکار کیے گئے جانوروں کے لیے یہ لفظ مستعمل نہیں ہے۔  

3۔ اِس  سے واضح ہے کہ حکم کے اطلاق میں  عرف و عادت کا اعتبار کیا جائے گا۔ چنانچہ  فقہا نے اِسی بنا پر یہ اصول قائم کیا ہے  کہ جو چیز عرف سے ثابت ہے، وہ  گویانص سے ثابت ہے۔ 

-

استحالہ

1۔ استحالہ (Transformation) کے معنی قلبِ ماہیت  کے ہیں۔ یعنی ایک چیز اپنی ہیئت یا ساخت یا خاصیت بدل کر کوئی دوسری صورت اختیار کر لے۔

2۔ اِس طرح  کے معاملے میں حلت و حرمت کا فیصلہ علت  کی بنا پر کیا جاتا ہے۔یعنی سببِ حرمت  اگر برقرار ہے تو حرمت قائم رہے گی، بہ صورتِ دیگر ختم ہو جائے گی۔

3۔ اِس کی ایک نمایاں مثال شراب کا  سرکے میں بدل جانا ہے۔ اِس کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے  کہ نوعیت اور خاصیت کی تبدیلی  سے کیا حکم بھی تبدیل ہو جائے گا  اور شراب کی بدلی ہوئی صورت حرام نہیں رہے گی؟ اِس کا جواب اثبات میں ہے۔   اِس کی وجہ یہ ہے  کہ تبدیل شدہ صورت میں نشے کی وہ علت برقرار نہیں  رہی، جو حرمت کا سبب تھی۔

4۔ استحالہ کے اِس اصول کا اطلاق حلال  اور حرام، دونوں طرح کی اشیا  پر ہو گا۔ یعنی جس طرح حرام اپنی خاصیت بدل کر حلال میں شمار ہو گا، اُسی طرح  اگر حلال بھی اپنی خاصیت بدل کر کسی حرام خاصیت کا حامل ہو جاتا ہے تو اُس کی حلت بھی حرمت میں تبدیل ہو جائے گی۔

-

سدِ ذریعہ

1۔ دین بعض اوقات ایسی چیزوں سے منع کرتا ہے، جو اصلاً ممنوع نہیں ہوتیں، تاہم اندیشہ ہوتا ہے  کہ وہ ممنوعات تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ ایسی  چیزوں پر پابندی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اُس دروازے کو بند کر دیا جائے، جس میں داخل ہونے سے گناہ یا نقصان کا خطرہ  نمایاں ہو۔ اصطلاح میں اِسے ’سدِ ذریعہ‘ (ذریعے کی بندش) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

2۔ اس کی ایک مثال   یہ ہے کہ سورۂ نور (24) میں عورتوں کو پاؤں زمین پر مارتے ہوئے چلنے کی ممانعت ہے۔ یہ مرد و زن کے اختلاط کے موقع کی احتیاطی تدبیر ہے۔ اِس کا مقصد یہ ہے کہ نہ عورتیں  مردوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کریں اور نہ مرد متوجہ ہوں اور نتیجتاً کسی فاحشہ کے    ارتکاب سے محفوظ  رہ سکیں۔

3۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عورتوں کو تیز خوشبو لگا کر باہر نکلنے  سے روکنا ، دیور سے تنہائی میں ملنے  اور مردوں کے پاس تنہا بیٹھنے سے منع فرمانا اور عورتوں کو محرم کے بغیر سفر کرنے سے روکنا اِسی نوعیت کی ہدایات ہیں۔

ـــــــــــــــــــــــــــــ