احکام شریعت کی تعیین کے لیے عرف و عادت کا اعتبار ہو گا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ شارع کے الفاظ کو اُن کے معروف اور مستعمل مفہوم میں سمجھا جائے گا اور اِسی بنا پر اُن کے مصداقات اور اطلاقات کو متعین کیا جائے گا۔
اِس بات کو لفظِ ’مَیْتَۃ‘ کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اِس کے معنی مردار کے ہیں۔ شریعت نے اِس کا کھانا حرام قرار دیا ہے اور فرمایا ہے:’حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ‘( تم پر مردار حرام ٹھیرایا گیا ہے)۔[106] اب سوال یہ ہے کہ’مَیْتَۃ‘، یعنی مردار کا اطلاق کیا ہر مردہ چیز پر ہو گا اور مثال کے طور پر ذبح کر کے مارا گیا جانور بھی مردار کہلائے گا یا مچھلی پر بھی اِس کا اطلاق ہو گا؟ جسے ذبح کیے بغیر ہی کھا لیا جاتاہے؟اِس کا جواب نفی میں ہے۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی زبان کے عرفِ استعمال میں ’مَیْتَۃ‘ سے وہ جانور مراد ہیں، جو طبعی موت مرے ہوں۔ ذبح کیے گئے جانور اور پانی سے شکار کیے گئے جانوروں کے لیے یہ لفظ مستعمل نہیں ہے۔
یہی معاملہ خون کی حرمت کا ہے۔ قرآن کا حکم ہے: ’حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ‘(تم پر مردار اور خون حرام ٹھیرایا گیا ہے)۔[107]سوال یہ ہے کہ جگر اور تلی جو بہ اعتبارِ حقیقت جمے ہوئے خون ہی کی ایک صورت ہیں،کیا وہ بھی اِس حکم کی بنا پر ممنوع ہوں گے؟ اِس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ اِس کی دلیل بھی یہ ہےکہ یہ دونوں اشیا خون کے مفہوم میں معروف نہیں ہیں۔ استاذِ گرامی اِس پہلو کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’’مَیْتَۃ‘ کا لفظ اِن احکام میں عرف و عادت کی رعایت سے استعمال ہوا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ عربی زبان میں اِس کا ایک لغوی مفہوم بھی ہے ،لیکن یہ جب اِس رعایت سے بولا جائے تو اردو کے لفظ ’مردار‘ کی طرح اِس کے معنی ہر مردہ چیز کے نہیں ہوتے۔اِس صورت میں ایک نوعیت کی تخصیص اِس لفظ کے مفہوم میں پیدا ہو جاتی ہے اور زبان کے اسالیب سے واقف کوئی شخص، مثال کے طور پر ، مردہ ٹڈی اور مردہ مچھلی کو اِس میں شامل نہیں سمجھتا۔ یہ تخصیص کیوں پیدا ہوئی؟ اِس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ اِس طرح کے جانوروں میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا کہ نہ نکلے تو اُس سے یہ مردار ہو جائیں۔‘‘
(البیان 1/590)
علامہ زمخشری لکھتے ہیں :
قصد ما یتفاھمہ الناس و یتعارفونہ في العادۃ، ألا تری أن القائل إذا قال: أکل فلان میتۃً ، لم یسبق الوھم إلی السمک والجراد کما لو قال: أکل دمًا، لم یسبق إلی الکبد والطحال، ولاعتبار العادۃ والتعارف قالوا: من حلف لا یأکل لحمًا فأکل سمکًا لم یحنث، وإن أکل لحمًا في الحقیقۃ. (الکشاف 1/ 241) | ’’قرآن میں لفظ ’مَیْتَۃ‘ عرف و عادت کے اعتبار سے استعمال ہوا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب کوئی کہنے والا کہتا ہے: فلاں نے مردار کھایا تو ہمارا خیال کبھی مچھلی اور ٹڈی کی طرف نہیں جاتا، جس طرح اگر اُس نے کہا ہوتا: فلاں شخص نے خون کھا لیا تو ذہن کبھی جگر اور تلی کی طرف منتقل نہ ہوتا۔ چنانچہ عرف و عادت ہی کی بنا پر فقہا نے کہا ہے کہ جس نے قسم کھائی کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا،پھر اُس نے مچھلی کھا لی تو اُس کی قسم نہیں ٹوٹے گی، دراں حالیکہ اُس نے درحقیقت گوشت ہی کھایا ہے۔‘‘ |
عرف و عادت کے اِس اصول کا اطلاق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا ہے ۔ چنانچہ مثال کے طور پر فرمایا ہے:
أحلت لنا میتتان ودمان: الجراد والحیتان والکبد والطحال. (السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم 1128) | ’’ہمارے لیے دو مری ہوئی چیزیں اور دو خون حلال ہیں: مری ہوئی چیزیں مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون جگر اور تلی ہیں ۔‘‘ |
اِسی طرح دریا اور سمند ر کے حوالے سے آپ کا ارشاد ہے:
ھو الطھور ماؤہ، الحل میتتہ. (نسائی، رقم 59) | ’’اُس کا پانی پاک اور اُس کا مردار بھی حلال ہے۔‘‘[108] |
اِس تفصیل سے واضح ہے کہ حکم کے اطلاق میں عرف و عادت کا اعتبار کیا جائے گا۔ چنانچہ فقہا نے اِسی بنا پر یہ اصول قائم کیا ہے :
الثابت بالعرف کالثابت بالنص، الثابت بالعرف ثابت بدلیل شرعی. (نشر العرف 115) | ”جو چیز عرف سے ثابت ہے، وہ نص سے ثابت کے مثل ہے، جو عرف سے ثابت ہے، وہ گویا دلیل شرعی سے ثابت ہے۔“ |
ـــــــــــــــــــــــــــــ